چین کا منہ توڑ جواب: امریکی ڈالر کا زوال اور نیا مالیاتی نظام

چین کا منہ توڑ جواب: امریکی ڈالر کا زوال اور نیا مالیاتی نظام

چین کا منہ توڑ جواب: امریکی ڈالر کا زوال اور نیا مالیاتی نظام 

آج ہم عالمی معیشت میں ایک بڑی اور اہم تبدیلی کا مشاہدہ کر رہے ہیں، کیونکہ چائینہ جو کہ دوسری بڑی معیشت ہے، بین الاقوامی تجارت اور مالیات میں اپنی کرنسی رینمنبی کو تیزی سے فروغ دے رہا ہے۔ یہ اقدام چائنہ کی عظیم معاشی خودمختاری اور اقتصادی پابندیوں سے خلاصی کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے، جسے ماہرین ڈی-ڈالرائزئشن کا نام دے رہے ہیں۔

ٹیرف کی جنگ کو سمجھیں:

ٹیرف کی جنگ تب ہوتی ہے کہ جب ایک ملک کی برآمدات پر دوسرا ملک حد سے زیادہ ٹیکس عائد کر دے، جس سے واضح انتقامی اقدامات کا اشارہ ملتا ہے۔ ٹیکسوں میں اضافے سے درآمدات کی گئی چیزوں کو مزید مہنگا کیا جاتا ہے، تاکہ صارفین بیرون ممالک کی اشیاء کو خریدنے سے گریز کریں۔  حالیہ دور میں امریکہ چین تجارتی جنگ ایک اہم مثال ہے، جس میں دونوں ممالک باہمی ٹیرف میں اضافہ کر رہے ہیں۔ امریکہ نے ابتدائی طور پر چینی درآمدات پر 34٪ فیصد ٹیرف عائد کیا تھا، جس پر چائنہ نے شدید ردعمل کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر 125٪ فیصد ٹریف عائد کیا اور جواباً امریکہ نے 34٪ سے بڑھا کر 145فیصد کر دیا تھا۔ 

ٹریف جنگ کے أسباب اور متوقع نتائج:

وجوہات:

  • غیر منصفانہ طرز عمل: غیر منصفانہ تجارت طریقے ٹیرف جنگوں کا باعث بن سکتے ہیں۔
  • سیاسی کشمکش: دو ممالک کے درمیان سیاسی تناؤ بھی ایک ٹیرف جنگوں کے شروع ہونے کی اہم وجہ ہے سمجھی جاتی ہے۔
  • اقتصادی دباؤ: بہت سے ممالک اپنے حریفوں پر اقتصادی دباؤ ڈالنے کے لیے زیادہ ٹیکس لگانے کے حربے بھی اپناتے ہیں۔

 نتائج:

  • مہنگی اشیاء: ٹیرف درآمدات کو زیادہ مہنگا بنا دیتے ہیں، جس سے صارفین کے لیے زیادہ خریدنا مشکل ہو جاتا ہے۔
  • تجارت اور اقتصادی ترقی میں رکاوٹ: ٹیرف جنگیں تجارت اور اقتصادی ترقی کو کم  کر دیتی ہیں۔
  • کسٹم جنگوں کا خطرہ: ٹیر کی جنگیں قابو نہیں کی جا سکتی، یہ ممکنہ طور پر تجارتی تنازعات اور کسٹم جنگیں شروع کر کے معیشتوں کو متاثر کرتی ہیں۔

 ڈی ڈالرائزیشن: اقتصادی تعاون کا ایک نیا دور

چین، روس اور ایران جیسے ممالک اپنے آپ کو امریکی پابندیوں سے بچانے کے لیے ڈالر  کو غیر مستحکم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اسی سلسلے میں یہ ممالک ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی کو فروغ دے رہے ہیں:

  •   مالی آزادی: امریکی ڈالر پر انحصار کو کم کر کے مالی خودمختاری میں اضافہ۔
  • مقامی اجارہ داری: امریکی پابندیوں کو کمزور کرنے کے لیے مقامی سطح پر اقتصاری راہیں ہموار کرنا۔
  • ایک نیا عالمی مالیاتی نظام: ایک ایسا عالمی مالیاتی نظام جس میں ایک سے زیادہ اسٹیک ہولڈرز ہوں۔

رینمنبی کے فروغ کے لیے چائنہ کی کوشش:

چائنہ نے آر ایم بی کو عالمی کرنسی کے طور پر فروغ دینے کے لیے چند اقدام کیے ہیں:

  • کراس بارڈر انٹربینک ادائیگی کا نظام (سی آئی پی ایس): 2015 میں لین دین کی سہولت فراہم کرنے کے لیے آر ایم بی کے نام سے ایک نظام متعارف کرایا گیا۔
  • خام مال کی خرید و فروخت: چائنہ نے عالمی سطح پر آر ایم بی مالیاتی نظام کو متعارف کروایا، جس سے خام مال کی خرید و فروخت اور عالمی منڈیوں میں اس کی پذیرائی بھی ہوئی۔
  • اسٹریک ہولڈرز: اس آر ایم بی مالیاتی نظام کو متعارف کرانے کے لیے چائنہ نے پہلے اسے اپنے ارد گرد کے ممالک میں فروغ دیا جس میں ایک سے زیادہ مشرقی ممالک شراکت دار تھے۔

ڈی ڈالرائزیشن کے اثرات:

اگر چین آر ایم بی مالیاتی نظام کو عالمی کرنسی کے طور پر فروغ میں کامیاب ہو گیا:

  • عالمی تجارت کی نیا نقشہ: بین الاقوامی تجارت اور مالیات تجارت میں آر ایم بی کے استعمال میں اضافہ ہوگا۔
  • عالمی اجارہ داری کا متبادل: امریکی اثر و رسوخ کو کم کر کے  چائنہ کی سیاسی اور اقتصادی طاقت کو فروغ دینا۔
  • امریکی مالیاتی طاقت کا خاتمہ: امریکہ کا زیادہ سود پر قرض فراہم کرنا اور اپنی من مرضی کی مالی پابندیاں نافذ کرنے کی طاقت کا خاتمہ۔

                                                                جیسے جیسے ڈالر کے زوال میں تیزی آرہی ہے، اس کا اثر عالمی امور، اور ڈالر کی بین الاقوامی مالیاتی طاقت کی حیثیت پر اس کا اثر پڑا ہے۔ دنیا اس کا بظاہر مشاہدہ کر سکتی ہے کہ کیسے چائنہ اور روس کے اقتصادی تعاون اور تجارت سے ڈالر اور دیگر مغربی کرنسیوں کی حیثیت میں کمی آئی ہے۔ روس کے وزیراعظم میخائل میشوسٹن کے مطابق، اب تقریبا تمام ادائیگیاں روبل اور یوآن میں کی جا رہی ہیں، جو ان کے اقتصادی تعاون میں ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔

1 Comments

  1. حالیہ کشیدگی کو اچھے سے سمجھایا ہے

    ReplyDelete
Previous Post Next Post